اعتدال اور بس اعتدال ( چوہدری ذبیع اللہ بلگن

منگل ستمبر 1, 2009

یہ بہت بری بات ہے کہ معمولی انتفاع کے حصول کی خاطر کسی کی توصیف میں زمین آسمان ایک کر دیے جائیں جبکہ فی الحقیقت وہ ایسا نہ ہوجیسا کہ بیان کیا جارہا ہے ۔برادر توفیق بٹ کی رفاقت میں گورنر ہاؤس میں گورنر خالد مقبول کے ساتھ چند گھنٹے اکٹھے گزارکر لوٹے تو ایک دوست نے کہا ’’گورنر صاحب پر دو سطریں لکھ دو‘‘۔عرض کیا ایسا کرنا بس میں نہیں ۔ہنر سے واقف ،مگر جرأت سے محروم ہوں ۔خوف زدہ ہوں کہ گورنر خالد مقبول کیلئے لکھی گئی تحریر خوشامد کے ضمن میں نہ آجائے لہذا جب لکھا تو گورنر صاحب کو ہدف تنقید بنایا۔مگر آج لکھ دیتا ہوں تاکہ ضمیر پر بوجھ نہ رہے’’ وہ بہت اچھے انسان ہیں‘‘ ۔گورنر ہاؤس کے مالی نے راقم کو بتایا تھا کہ رات جس قدر بھی تاخیر سے لوٹیں فجر کی نماز ہمیشہ مسجد میں ادا کرتے ہیں۔ عرض کر رہا تھا کہ صاحب قتدار کے حق میں لکھتے ہوئے دل خوف زدہ رہتا ہے اور ضمیر کی عدالت مانع رہتی ہے کہ ان کیلئے لکھنا خود داری و انا کو متاثر کرے گا ۔کچھ بھی ہو ہمیں ایک خدا کے سامنے ہی جھکنا ہے اور ایک سے زیادہ خدا ؤں کاوجود ہمیں گواراہ ہے اور نہ برداشت۔کیونکہ رزق ،دولت اور شہرت خالق کائنات کے قبضہ قدرت میں ہے ،وہ بڑے نادان ہیں جو ان چیزوںکو فلک کی بجائے ارض پر تلاش کرتے ہیں ۔کوئی کرتا ہے تو کرتا رہے بہر حال راقم کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ کی صفات کسی سیاستدان یاصاحبان اقتدار سے وابسطہ کرلے۔
گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ق) پر یکے بعد دیگرے لکھا تو دوستوں کوعجیب گزرا ۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) کے حق میں کیوں ؟ اگر لکھنا ہی تھا تو خلاف لکھتے۔عرض کیا ’’پانچ سال خلاف ہی تو لکھا ہے‘‘ہمارے ہا ں یہ بڑا مسئلہ ہے ہم لوگ حزب اقتدار کی مخالفت میں ان انتہاؤں کو جاپہنچتے ہیںجہاںسے واپس آنے کیلئے اخلاقی جرأت میسر ہوتی ہے اور نہ حوصلہ ۔ہم نے جنرل ایوب کو مارشل لاء کا بانی ہونے کے سبب بہت لتاڑا ۔بہت برا لکھا اور کہا مگر یہ فراموش کر گئے کہ جنرل ایوب نے کچھ تو بھلے کام کئے ہونگے۔اسی طرح جنرل یحییٰ خان ،ذولفقار علی بھٹو،جنرل ضیاء الحق، میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں جنہیں ان کے دور اقتدار میں خوب تنقید سے نوازا گیا اس دوران ہم وہ تمام خیر کے کام بھول گئے جو ان صاحبان نے اپنے اپنے ادوار میں سرانجام دیے تھے ۔ان دنوںہمارے تحریر نویس بھائیوں نے چودھری برادران کو نوک قلم پر رکھا ہوا ہے ۔تسلیم سہی کہ وہ ایک آمر کے ساتھ غیر مشروط طور پر وابستہ رہے ہیں ۔مگر کون نہیں رہا ؟کیا ایسا دعویٰ شہید جمہوریت جناب ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق کیا جا سکتا ہے ؟وہ ایک عوامی لیڈر تھے جناب نے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا وہ دنیا بھر میں ابھرتے ہوئے بین الاقوامی قائد تھے ۔مگر یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ جنرل ایوب کی کابینہ میں وزیر خارجہ کے منصب پر فائز تھے ۔ اسی طرح اگر میاں نواز شریف اپنی مارشل لاء سے نسبت کے متعلق انکاری ہوں تو انہیں زیبا نہیں ۔کیونکہ دنیا جانتی ہے محمد خان جونیجو کو مسلم لیگ کی مرکزی صدارت سے ہٹا کر غاصبانہ طرز پر مسلم لیگ ہاؤس لاہور اور مرکزی صدارت پر قابض ہونے والے صاحب کا نام ’’محمد نواز شریف‘‘تھا اور یہ سب جنرل ضیاء الحق کی آشیر باد سے ہی ممکن ہوا تھا۔شک نہیں کہ مسلم لیگ (ق)بھی مسلم لیگ (ن) کی طرح ایک فوجی آمر کے دور میں قیام عمل میں آئی ۔تاہم سوال محض اتنا سا ہے کہ کس نے کس قدر سیاسی اقدار اور رواداری کا مظاہر ہ کیا ۔ میاں نواز شریف دو مرتبہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے ہیں اس دوران ان سے متعدد غلطیاں سرزد ہوئی ہو ں گی مگر ان کے دور اقتدار میں انجام پانے والے ترقیاتی امور کو نظر انداز کرنا زیادتی ہوگا ۔اسی طرح چودھری برادران پانچ سال تک پنجاب میں عملی طور پر حکمران رہے ہیں اس دوران ان سے بھی کئی کوتاہائیاںسرزد ہوئیں مگر ان لغزشوں کی آڑ میں چودھری برادران کے دور میں سینکڑوں ترقیاتی اور انقلابی امور سے صرف نظر کرنا دیانت داری کے اصولوں کے منافی ہے ۔ 1122 سمیت ہسپتالوں میں ایمر جنسی کا مفت علاج ،پنجاب بھر میں سڑکوں کا جال پھیلانا،آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں انقلابی اقدامات کرنا بلاشبہ ایسے کام ہیں جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
اگر چہ یہ سارے کام چودھری پرویز الہیٰ نے بحیثیت وزیر اعلیٰ انجام دیے ہیں مگر اس کہنہ مشقی میں ان کے صاحبزادے مونس الہیٰ اور ان کی ٹیم کا ذکر نہ کرنا بھی مناسب نہ ہوگا ۔ چودھری مونس الہیٰ نے احمد فاران کی رفاقت میں جس طرح سے اہلیان لاہور کی خدمت کی اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔مونس الہیٰ ایم پی اے تھا اور نہ ایم این اے، اس کے باوجود وہ اہلیان لاہور کی خدمت میں پیش پیش رہا ۔احمد فاران مونس الہٰی کی ٹیم کے ہر اول دستہ کے طور پہچانے جاتے ہیں۔ راقم نے بچشم خود ان صاحب کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں مزدوروں کی طرح کام کرتے دیکھا ہے ۔چودھری پرویز الہیٰ کے دور اقتدار کو جس دیانتداری سے احمد فاران اور اس کی ٹیم نے نبھایا ہے یقینی طور پر لائق تحسین ہے ۔ا گرچہ آج ایک مخصوص طبقہ احمد فاران کی کردار کشی میں مصروف عمل ہے تاہم میں احمد فاران سے اتنا ہی کہوں گا کہ
ہنر وروں کی طرف سنگ آتے رہتے ہیں
تم اپنا ذہن مظفر فگار مت کرنا
جو دریا میں اترے گا وہ یقینی طور پر گیلا بھی ہوگا ۔اگر چودھری پرویز الہیٰ، چودھری شجاعت حسین ،مونس الہی، احمدفاران اور دیگر احباب کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے تو اتنی سی استدعا ہے کہ بہت کچھ برا ہوا ہو گا تاہم پھر بھی کچھ اچھا بھی رہا ہوگا ۔اعتدال کی راہ اختیار کیجئے۔ عرض کرتا ہوں جب کام ہونگے تو لغزشیں بھی ہونگی لہذا اس روش کو ترک کرنے کی ضرورت ہے کہ منفی کاموں کو یاد رکھا جائے اور مثبت کارناموں کو نظر انداز کر دیا جائے آخر میں یہ عرض کرنا ضروری خیال کرتاہوں کہ آج اگر میں نے چودھری برادران کی ستائش میں چند جملے لکھ دیے ہیں تو الحمدللہ میرا قلب و ذہن اطمینان کی بلندیوں پر متمکن ہے کہ چودھری برادران اب اس جگہ ہیں جہاں سے وہ مجھ جیسے بوریا نشین کو کچھ نہیں دے سکتے اور نہ یہ قلندر کسی نوع کی عنایت کا امیدوار ہے ۔

0 comments:

Add PML BLOG

Bookmark and Share

Copyright © 2009 - Pakistan Muslim League News - is complied by Shahzad Faisal
- Design Disease - Blog and Web - Dilectio Blogger Template